جمہوری طرز حکمرانی میں معلومات تک رسائی کے قوانین حکومتی اقدامات کی شفافیت کو یقینی بناتے ہیں۔ ان قوانین کی مدد سے شہری حکومتی اداروں سے معلومات طلب کر سکتے ہیں، اب تک پوری دنیا کے 100سے زیادہ ممالک نے معلومات تک رسائی کے قوانین کا نفاذ کیا ہے، پاکسان میں بھی وفاقی اور چاروں صوبائی قانون ساز اسیمبلیوں نے عوام کی معلومات تک رسائی کے قوانین منظور کیے ہیں، لیکن اب بھی شہریوں کو معلومات تک رسائی میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان ھائی کورٹ کے وکیل اور کوئٹہ کے شہری ایڈوکیٹ یاسر خان لودہی نے کہا، “معلومات تک رسائی کے ان قوانین کے تحت کوئی بھی شہری تحریری طور پر سرکاری معلومات حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے جس پر متعلقہ حکام کو ۱۴ روز میں جواب دینا ہوتا ہے۔ اگر درکار معلومات کو جمع کرنے میں وقت صرف ہونا ہو تو متعلقہ حکام درخواست موصول ہونے کے 20 روز کے اندر اندر اس کا جواب دینے کے پابند ہوں گے۔ اگر متعلقہ حکام معلومات دینے سے انکار کرتے ہیں تو درخواست گذار شہری اس کے خلاف وفاقی یا صوبائی محتسب کے دفتر میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس میں حکام کو معلومات فراہم نہ کرنے کی وجوہات بتانا ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ۔ جب عام شہری حکومت سے سوال کرتے ہیں تو حکومت اپنے آپ کو عوام کے آگے جوابدہ سمجھتی ہے اور اس کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔کسی بھی سرکاری ادارے سے مانگی جانے والی معلومات ایسی نہیں ہونی چاہئیں جو قومی سلامتی، دوست ممالک کے ساتھ تعلقات، کسی کی نجی زندگی یا خاندان کے لیے نقصان دہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ۔ “ہمارے ملک میں رائج معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شہری سرکاری دستاویزات جیسے ریکارڈ، میمو، معاہدہ نقشہ، سرکلر، اکاؤنٹینسی، پریس ریلیز، رپورٹ، کتابچے، الیکٹرانک معلومات ای میلز، رپورٹ کسی بھی دستاویز کی سی ڈی، آڈیو ویڈیو سرکاری ریکارڈنگ، اعلانات، تصاویر، نیوز کٹنگ حاصل کر سکتا ہے۔”
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی ورکر کبیر جان کاکڑ کے مطابق “بلوچستان میں کسی سرکاری محکمے سے مطلوبہ معلومات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں، عام طور پر سرکاری دفاتر کے ملازم بھی معلومات تک رسائی کے قانون کے بارے میں نہیں جانتے، اور نہ ہی عام شہریوں کو سرکاری دفاتر سے معلومات حاصل کرنے کے طریقہ کار کا علم ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ، حکومت کو چاہیے کہ رائیٹ ٹو انفارمشن جیسے قوانین کی آگاہی کے لیے اقدامات کرے تاکہ عام شہری بھی حکومتی کی طرف سے ان کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں جان سکیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر راجا وسیم نے کہا “حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ بلکل واضح ہےکہ کوئی بھی حکومت اپنا احتساب نہیں چاہتی. مگر دوسری طرف عوام کی عدم دلچسپی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ‘معلومات کی آزادی’ ہمارا قانونی حق ہے اور جو لوگ یہ جانتے ہیں، ان میں سے بیشتر کو معلومات تک رسائی کا صحیح طریقےکار معلوم نہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ، “قانونسازی کے ساتھ ساتھ ان قوانین پر عوامی آگاہی بھی حکومت کا فرض ہے، اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور شہریوں کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر بنیادی سطح پر عوام میں قانونی آگاہی بڑہانے کے اقدامات کریں۔
بلوچستان سے تعلق رکہنے والے ایک سماجی ورکر عرفان بنگلزئی نے کہا، “معلومات تک رسائی سمیت تمام بنیادی حقوق کی آگاہی ہمیں بچوں کو اسکول کی سطح پر دینی چاہیے، حکومت کو چاہیے، بچوں کے تعلیمی نساب میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا باب شامل کرے اور ایسا کرنا ہمارے لیے اپنا بہتر کل بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
شہری معلومات کی درخواستیں ای میل، فیکس یا خط کے ذریعے متعلقہ سرکاری اداروں کو بھیجی جا سکتی ہیں۔ اس درخواست کی کوئی فیس نہیں ہے اور طلب کی گئی دستاویزات کے پہلے بیس صفحے بھی مفت فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے 2005 میں معلومات تک رسائی کا قانون نافذ کیا تھا، لیکن ان پر تاحال نہ تو عملدرآمد ہو سکا ہے اور نہ ہی ان قوانین سے عوام کو کوئی ریلیف مل پایا ہے۔ اس حوالےسے حکومت پر میڈیا، خاص کر سوشل میڈیا پر کافی دباؤ رہا ہے۔رکن بلوچستان اسمبلی بشرا رند نے کہا “ہر جمہوری معاشرے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ ریاست کے معاملات سے اپنے شہریوں کو مکمل آگاہ رکھے اور ریاست کے معاملات تک ان کی رسائی کو ممکن بنائے، اور موجودہ حکومت نے شہریوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ دوسرے اسمبلی ممبران سے بھی اس موضوع پر بات کریں گی تاکہ حکومتی اداروں کو عوامی سطح پر معلومات تک رسائی کے قوانین کی آگاہی کے اقدامات یا شراکتیں تجویز کی جاسکیں۔